کہتے ہیں لوگ روٹی پُر مغز یہ غذا ہے |
بچوں کو یوں لبھانے کی خوب یہ ادا ہے |
کھائی تھی ناشتے میں کچی سی ایک روٹی |
اس دن سے پیٹ میں اف بھگدڑ سی اک فضا ہے |
آسام کے ہمارے جتنے بھی ہم نشیں ہیں |
چاول پسند ہیں سب روٹی سے سب خفا ہیں |
ہم ہیں جو درمیاں ہیں روٹی و چاولوں کے |
یوپی کے ہم نوا تو روٹی پے ہی فدا ہیں |
دارِ علوم میں ہاں ملتی ہیں روٹیاں دو |
دریائے شوربا میں بہتی ہیں بوٹیاں دو |
اس کا یہ حق ہے ہم پر کے حاشیہ نکالوں |
پھر چار ٹکڑیوں میں بینِ سُطور کھالوں |
امّی سنا رہی تھی بچپن سے یہ فضیلت |
کم کھاؤں چاولاں ہے روٹی ہزار نعمت |
لگتا ہے مجھ کو ایسا روٹی کی ہے سیاست |
کرتے ہیں ڈاکٹر بھی اسکی یہاں حمایت |
کل شب میں سو رہا تھا آتی ہے خواب میں وہ |
کیوں پھینکتے ہو مجھ کو کرتی ہے یہ شکایت |
آقاﷺ نے ہے سکھایا روٹی کی کر تو عزت |
دنیا کے واسطے ہے یہ اک عظیم نعمت |
جو بچ گئی ہے روٹی اس کو اٹھا کے رکھ دو |
بھونکا جو کوئی آۓ اسکو اٹھا کے دے دو |
کھاتا رہے تو آکل ہر وقت روٹیاں دو |
کھاتے ہو کیوں نہیں کے ملتی بھی بوٹیاں دو |
تقدیر کی بنسبت ملتا ہے جو بھی لے لو |
روٹی ملے تو کھالو پانی ملے تو پی لو |
ہے واقعی فضیلت روٹی کو دیگروں پر |
اب ہاتھ منھ بھی دھو لو اس کا ارادہ کر لو |
گر بھوک نا ہو تجھ کو اوروں کو ہی بلالو |
دوچار مفلسوں کو ہم خوان ہی بنالو |
بے جا ہے یہ رئیسی پھینکے نہ کوئی روٹی |
اس سے ہی تم کمَزکم روٹھے خدا منالو |
ثانی ؔ تھا آشناۓ چاول مگر کہوں کیا |
یوپی میں آ کے روٹی تقدیر بن گئی ہے |
کچھ اس طرح نشا سا چھاتی گئی وہ مجھ پر |
دیکھو کہ آج میری تحریر بن گئی ہے |
معلومات