ہر دم لگے جو شیریں آقا کا نام ہے
بے حد درود ان پر بے حد سلام ہے
ہے نور ان کا اول تشریف آخری
سب انبیا میں لیکن اعلیٰ مقام ہے
عترت نبی کی خاطر قربان جان ہے
آقا سے ہے یہ عرضی حاضر غلام ہے
یہ دوریاں نبی جی میری حریف ہیں
لگتا خلاف میرے سارا نظام ہے
جس کرم کا ہے گھیرا سارے جہان کو
ہر آن یاد اس کی ہستی کا کام ہے
کب ہے طلب میں دنیا کل کی خبر نہیں
ناقص ہے عقل میری اور عشق خام ہے
نامہ سیاہ ہے لیکن جانتا ہوں میں
عشقِ نبی ہے دل میں اور یاد کام ہے
گر کشتہ ہو گیا دل یادِ حبیب میں
جانوں گا زندگی پھر پا لی دوام ہے
محمود وہ بشر ہی بندہ خدا بنا
سرکار سے ملا یہ جس کو پیام ہے

30