جب مقابل پہ مرے جان و جگر آ نکلے
دیکھنے ان کو مرے قلب و نظر آ نکلے
رات پھر یاد انہیں آئی ستم ڈھانے کی
وہ رقیبوں کو لئے میرے جو گھر آ نکلے
کوئی ایسے تو گنہ مجھ سے بھی سرزد نہ ہوئے
ہاتھ میں کھینچ کے تلوار ادھر آ نکلے
یہ مروّت کا تقاضا تھا کہ تھی نظرِکرم
جو کئی بار کہا مجھ سے کِدھر آ نکلے
اک وبا کا بھلا کس طور سے رستہ روکیں
اس کا جی چاہے جہاں اور جدھر آ نکلے
دل جگر روح سبھی ساتھ لیا جب وہ چلے
جاں بچی تھی اسے لینے وہ ادھر آ نکلے
لاکھ کوشش سے صلہ ملتا ہے محنت کا یہاں
مانگ بھرنے کے لئے خونِ جگر آ نکلے
زندگی بخش تھی بارش جو ہوئی عرفاں کی
ہم بھی صحرا میں تھے بادَل جو اُدھر آ نکلے
طارق آتے ہوئے اس کو بھی یہ کہتے آنا
وہ کسی روز ہمارے بھی نگر آ نکلے

0
74