نقیبِ شہر نے چرچا کیا ہے گلیوں میں
ہے آیا حکم کہ منصور کو سزا دیں گے
چلی ہے رسم جو حق بات صاف کہنے کی
وہ ایسی رسم کو بنیاد سے مٹا دیں گے
بپھر گیا ہے سمندر تو اب وہ موجوں کو
ہماری سمت میں چلنے کی خود ہوا دیں گے
وہ آسمان سے اترے ہوئے صحیفوں کو
سمجھ نہ آنے کے باعث بس اب جلا دیں گے
عداوتوں کو محبّت کا نام دے دے کر
دلوں میں نفرتوں کی آگ وہ لگا دیں گے
اگر زمین پہ دعوٰی کیا وراثت کا
عدالتوں میں وہ توہین کی سزا دیں گے
گلی گلی میں وہ پھیلا کے نفرتوں کی ہوا
شجر سے پتے محبّت کے سب گرا دیں گے
یہ پہلی بار تو ایسا ہوا نہیں لیکن
اُٹھے ہیں زُعم یہ لے کر کہ حق مٹا دیں گے
بہت سے آئے ہیں پہلے بھی دعویٰ دار ایسے
جو کہہ رہے تھے کہ توحید کو مٹا دیں گے
مگر ہوا ہے جو انجام ان شریروں کا
ہم ایک ایک کا نقشہ انہیں دکھا دیں گے
کبھی بھی ظلم کے آگے نہ سر جُھکا اپنا
کہ ہوتا آیا ہے اب تک یہی بتا دیں گے
جو کرتے آئے ہیں پہلے وہ پھر کریں گے ہم
خدا کے سامنے سجدوں میں گڑ گڑا دیں گے

0
61