آئی جو فصلِ نو بہار باغ کا رنگ ہے وہی
بانٹیں گے ہم نوید کیا ہاتھ تو تنگ ہے وہی
ارض و سما میں کیا بھلا بنتی رہے گی کربلا
گھیرا ہے جس نے وہ بلا رہنی جو سنگ ہے وہی
اب بھی شرارِ بُولہب لڑتی رہے گی نُور سے
نیکی بدی میں تھی سَدا جاری سو جنگ ہے وہی
باعثِ جاہ و فخر ہے مال ہو گو حرام کا
مال نہ ہو تو علم کیا باعثِ ننگ ہے وہی
قدریں بدل گئی ہیں اب کرتا تھا جو وفا کبھی
دھوکہ فریب دیکھ کے انساں بھی دنگ ہے وہی
شیطاں کا حوصلہ بلند ہے کہ وہ کامیاب ہے
ڈالی تھی اس نے جو کبھی رنگ میں بھنگ ہے وہی
آئی ہے ابتلا یہاں ایک کے بعد ایک پر
بھولے ہوئے ہیں موت کو جینے کا ڈھنگ ہے وہی
اب تو بچیں گے بس وہی رب کی جنہیں پنہ ملے
توبہ جو کر بھی لی تو کیا دل پہ تو زنگ ہے وہی

0
61