دل اس کے در سے پھر کے نہ آیا تو کیا ہوا |
اس بے وفا پہ خود کو مٹایا تو کیا ہوا |
ہیں کوچۂ حبیب کو تاریکیاں پسند |
پھر شمعِ آرزو کو بجھایا تو کیا ہوا |
جب غیر سے ہی اس کو محبت ہوئی ہے راس |
میں ساری عمر اس سے نبھایا تو کیا ہوا |
بستر مرا تو کانٹوں سے بھرپور ہی رہا |
تیری رہوں میں دل ہی بچھایا تو کیا ہوا |
ہے کون وہ جو بوسے پہ کرتا ہو اکتفاء |
نازک بدن کا پاؤں دبایا تو کیا ہوا |
لمحہ بہ لمحہ بجلیاں دل پر مرے گریں |
اس نے جو تھوڑا اشک گرایا تو کیا ہوا |
اللہ تیرے دل کو بھی شاداب ہی رکھے |
ثانی کے دل کو تو نے جلایا تو کیا ہوا |
معلومات