شکم پرور! ترا کیوں آج بھی مطبخ میں پیشی ہے |
زمانِ امتحاں میں بھی خیالِ خورد و نوشی ہے |
سراپا جستجوۓ نان و بریانی بنے بیٹھے |
یہ کہتے ہیں تلاشِ آب و دانہ عذرِ خویشی ہے |
رواں ہے قافلہ تیرا دمادم جانبِ منزل |
شکم "ھل من مزیدی" اور تو بھی اس کا دوشی ہے |
میسر جتنے لمحے ہیں سبھی کو کام میں لاؤ |
ظفریابی اسی کے نام ہے جو سخت کوشی ہے |
ہو مقصد کامیابی گر تو سیکھو درگزر کرنا |
کہ کمیابی کی اک منزل بھی شاہی ؔ چشم پوشی ہے |
معلومات