شکم پرور! ترا کیوں آج بھی مطبخ میں پیشی ہے
زمانِ امتحاں میں بھی خیالِ خورد و نوشی ہے
سراپا جستجوۓ نان و بریانی بنے بیٹھے
یہ کہتے ہیں تلاشِ آب و دانہ عذرِ خویشی ہے
رواں ہے قافلہ تیرا دمادم جانبِ منزل
شکم "ھل من مزیدی" اور تو بھی اس کا دوشی ہے
میسر جتنے لمحے ہیں سبھی کو کام میں لاؤ
ظفریابی اسی کے نام ہے جو سخت کوشی ہے
ہو مقصد کامیابی گر تو سیکھو درگزر کرنا
کہ کمیابی کی اک منزل بھی شاہی ؔ چشم پوشی ہے

52