مغفرت ہو جائے میری، بس يہی ہے التجا
کر مبدل معصیت کو نیکیوں سے، اے خدا
بخش دیتا ہے بہانے ڈھونڈ کر، تو کس طرح
دین تیری ہے نرالی، اور کیسی ہے عطا
قوم کی خدمت کا جذبہ کوٹ کر بھر دے سدا
ہو چکی ہے ہر طرف یلغار برپا، کر فنا
داستاں سنتے سناتے کپکپی طاری ہوتی
مانگوں تجھ سے بھیک عزت کی، بنوں میں بھی گدا
مٹ چکی غیرت دلوں سے، خاک ہوئی عظمتیں
لوٹ جائیں پھر کرم، حاصل ہوں کھوئی وقعتیں
ہم پشیماں بن رہیں، ہو لطف مولا بھی فدا
نظر رحمت جو ہو، پھر دوبارہ پائیں رفعتیں
روٹھنے سے آپ ہم سے ہو چکے ہیں بھی خفا
پاک کر دیں، درگزر کر دیں، مٹا دیں لغزشیں
رکھیو ناصر کو برائی سے نہایت دور ہی
باز رہتے بھی سدھر پاؤں جو، ساری خصلتیں

0
82