میری یادوں میں وہ ہنسی ہے ابھی
یاد لہجے کی دلکشی ہے ابھی
آ گیا ہوں جو میں اسے ملنے
اس کی مجھ پر نظر پڑی ہے ابھی
دل ہے بے تاب اُس سے ملنے کو
ایک وارفتگی بچی ہے ابھی
کربلا اب بنے گا دیس اپنا
حق کا نعرہ گلی گلی ہے ابھی
سوچتا ہوں غرور سے کہہ دوں
تیری گردن کہاں کٹی ہے ابھی
خوب یہ راز دل نے سمجھا ہے
خامشی بھی تو بندگی ہے ابھی
آ گیا ہے بہار کا موسم
کچھ ہواؤں میں تازگی ہے ابھی
طارق اترا ہے آسماں سے نور
جگ میں پھیلی جو روشنی ہے ابھی

0
82