مرا بھی خون بہا تھا چمن بنانے میں |
انہیں یہ ذکر گوارا نہیں فسانے میں |
جنوں میں آکے خرد نے بھی ساتھ چھوڑ دیا |
خرد پہ دور یہ آیا ہے اس زمانے میں |
گماں ہے اس کو کوئی عیب اب نہیں باقی |
اگرچہ وقت لگا آئینہ چھپانے میں |
اسی لئے تو نہیں کوئی توڑ پایا مجھے |
بنا ہوں میں بھی تو قدرت کے کارخانے میں |
حسین دیکھے جو دنیا کے روز و شب تو کہا |
کسی کو وقت لگا ہو گا سب سجانے میں |
وہ لوٹ آیا ہے ساقی ، خیال یہ کر کے |
کوئی بھی جام نہ باقی رہا مے خانے میں |
کسی درخت پہ بیٹھا رہا تھا شب بھر جو |
پہنچ سکا وہ پرندہ نہ آشیانے میں |
میں امتحان سے گزرا ہوں بارہا طارق |
اسے بھی تجربہ ہے مجھ کو آزمانے میں |
معلومات