مرا بھی خون بہا تھا چمن بنانے میں
انہیں یہ ذکر گوارا نہیں فسانے میں
جنوں میں آکے خرد نے بھی ساتھ چھوڑ دیا
خرد پہ دور یہ آیا ہے اس زمانے میں
گماں ہے اس کو کوئی عیب اب نہیں باقی
اگرچہ وقت لگا آئینہ چھپانے میں
اسی لئے تو نہیں کوئی توڑ پایا مجھے
بنا ہوں میں بھی تو قدرت کے کارخانے میں
حسین دیکھے جو دنیا کے روز و شب تو کہا
کسی کو وقت لگا ہو گا سب سجانے میں
وہ لوٹ آیا ہے ساقی ، خیال یہ کر کے
کوئی بھی جام نہ باقی رہا مے خانے میں
کسی درخت پہ بیٹھا رہا تھا شب بھر جو
پہنچ سکا وہ پرندہ نہ آشیانے میں
میں امتحان سے گزرا ہوں بارہا طارق
اسے بھی تجربہ ہے مجھ کو آزمانے میں

52