دستور یہ ہمارا یہاں ہر قدم رہا |
صد شکر جو ملا نہ ملا تو نہ غم رہا |
عادت پڑی سجود کی عہدِ شباب میں |
اور شیب میں بھی سر تو اسی در پہ خم رہا |
کام آ گئے جو وقت پہ لے کر گئے دعا |
ان کا مقام دل میں کبھی پھر نہ کم رہا |
امّید کچھ ہمیں بھی پذیرائی کی نہ تھی |
لکھتا جو سچ ہمیشہ ہمارا قلم رہا |
دل نے خرَد کی بات سنی ان سنی نہ کی |
کیسے کہو کہ حکمراں دل پر صنم رہا |
اس نے حساب ہی نہ لیا سب کے سامنے |
تھا اس کا ظرف جس سے ہمارا بھرم رہا |
اپنے دروں وہ خود ہی جلاتا رہا ہے آگ |
مالِ حرام سے ہے جو بھرتا شکم رہا |
طارق حیات امتحاں ہے موت ناگزیر |
ہیں سرخرو ہمیں جو خُمارِ حرم رہا |
معلومات