رکھا گیا ہے کیوں ہمیں ایسی حدود میں
کیونکر ہے اس قدر بھلا انساں قیود میں
دے کر شعور اشرف المخلوق جو کہا
ابلیس کی کھٹکتے ہیں چشمِ حُسود میں
ہم پا گئے تجلّئ تنزیہہِ ذات جو
امکاں ہے دخل ہو گا ہمارا شہود میں
ہم اس کی بارگاہ میں مقبول جب ہوئے
پھر کیا غرض ہماری نمائش ، نمود میں
ہم کو حضورِِ قلب جب اس سے عطا ہوا
ہر دم رہیں گے ہم تو رکوع و سجود میں
نشّہ خیالِ وصل کا بھی اس قدر ہوا
ہم رات جھومتے رہے ، رقص و سرود میں
ہم نے جہاں میں پا لیا اک ایسا بھی وجود
جو خود فنا تھا ، عشقِ خُدائے ودود میں
طارق ہے جب سے علم ہوا اک حبیب کا
گزرے ہیں روز و شب مرے اکثر درود میں

1
49
پسندیدگی کا شکریہ ناصر ابراہیم صاحب!

0