رکھا گیا ہے کیوں ہمیں ایسی حدود میں |
کیونکر ہے اس قدر بھلا انساں قیود میں |
دے کر شعور اشرف المخلوق جو کہا |
ابلیس کی کھٹکتے ہیں چشمِ حُسود میں |
ہم پا گئے تجلّئ تنزیہہِ ذات جو |
امکاں ہے دخل ہو گا ہمارا شہود میں |
ہم اس کی بارگاہ میں مقبول جب ہوئے |
پھر کیا غرض ہماری نمائش ، نمود میں |
ہم کو حضورِِ قلب جب اس سے عطا ہوا |
ہر دم رہیں گے ہم تو رکوع و سجود میں |
نشّہ خیالِ وصل کا بھی اس قدر ہوا |
ہم رات جھومتے رہے ، رقص و سرود میں |
ہم نے جہاں میں پا لیا اک ایسا بھی وجود |
جو خود فنا تھا ، عشقِ خُدائے ودود میں |
طارق ہے جب سے علم ہوا اک حبیب کا |
گزرے ہیں روز و شب مرے اکثر درود میں |
معلومات