محبت سے لبریز جب دل ہو جائیں
کسوٹی پہ تب ہی اتر پورے آئیں
قضا و قدر کے کھیل سے آشنا گر
تو پھر پر خطر راستوں کو بھی پائیں
مسائل سے ہوئی ہے وحشت سی برپا
سنائی دے بس شہر میں سائیں سائیں
کبھی دکھ رہیں تو کبھی سکھ کے موسم
خزاں پھر بہاروں کی رت جگمگائیں
چمن کے گلوں پر گری کیا یہ شبنم
بنا برسے ساون سا احساس چھائيں
نڈر رہتے ہیں جو، نکل جاتے آگے
کریں بزدلی تو ہمیشہ ہی روئیں
جہاں فتح ناصر بھی کس نے کیا تھا
دلیری سکندر کی من کو جو بھائیں

0
61