عشق نے جانے کیسے کیسے لوگوں کو برباد کیا |
بے قابو جذبوں نے دل کو ، باعثِ صد افتاد کیا |
اک رستے پر ، منہ پھیرے تو ، ساتھ نہیں تھے چل سکتے |
چلتے چلتے ، پل دو پل ، من فکروں سے آزاد کیا |
لیلٰی پر الزام نہ آئے ، کس کس کو سمجھائیں ، کیوں |
مجنوں چھوڑ گئے ہیں کتنے شہر ، اور دشت آباد کیا |
عشق مجازی کرنے والے آخر کو یہ سمجھے ہیں |
عشق حقیقی جس نے کیا ہے اُس نے اُسے دلشاد کیا |
ہر سُو حُسن بکھیرا ، دیکھو دونوں جہاں کے خالق نے |
چہرے کو مہتاب بنایا ، قامت کو شمشاد کیا |
وقت ہے ریت کی مُٹھی جو ہاتھوں سے پھسلی جائے ہے |
طارق کون ہے جس کو تُو نے ایسے میں اُستاد کیا |
معلومات