جب دیا دل اسے جاں دینے کو تیّار رہے
اس کے بدلے میں صلے کے نہ طلب گار رہے
روشنی یوں تو بہت چاند نے پھیلائی تھی
تم ہی ظلمات کی دیوار کے اُس پار رہے
اس کو کیا ذات قبیلے سے کہ زر کتنا ہے
وہ یہی پوچھے گا کس کس کے وہاں یار رہے
ہم تو کہہ دیتے ہیں بات اچھی لگے یا کہ بُری
یہ نہ ہو سینے پہ رکھا ہوا اک بار رہے
رابطہ ٹوٹ گیا اُس سے تو ہو گی مشکل
یہ ضروری ہے ملا اُس سے کوئی تار رہے
زندگی بیت گئی کب یہ پتہ ہی نہ چلا
ہم کو لگتا ہے یہی دن کوئی دو چار رہے
طارق آزادیٔ دل ہم کو بھی ہوتی تھی عزیز
سر جھکایا ہے تو پھر کاہے کو پندار رہے

0
46