تُم نے کل بام پہ آ کے جو کہا تھا کیا تھا
ذکر ہونٹوں سے تمہارے جو سنا تھا کیا تھا
ہو کے امّید کی رتھ پر جو سوار آئے تھے
خواب وہ ٹوٹے تِرا عہدِ وفا تھا کیا تھا
بسترِ مرگ سے اُٹھ آئے ہیں اب دل کے مریض
یونہی کہتے ہیں بنا پھرتا مسیحا کیا تھا
تم تو کہتے تھے کہ سچ بول کے دکھلاؤں گا
وہ جو سُقراط نے کل زہر پیا تھا کیا تھا
کر کے ناراض خدا بندوں کی خاطر تم نے
پھر سے اک بار کیا حشر بپا تھا کیا تھا
جانے کمزور ہے کیوں یاد زمانے بھر کی
وہ جو فرعونوں کا انجام ہوا تھا کیا تھا
بھول بیٹھے ہیں تو دہرانے کا سامان ہوا
وہ جو تاریخ نے پیغام دیا تھا کیا تھا
آتے جاتے یونہی رہتے ہیں یہ فرعونِ زماں
اک جلا آگ میں اک پھانسی چڑھا تھا کیا تھا
آخری دور میں داخل ہے زمانہ طارق
تم بھی دیکھو تو جو اسلام ملا تھا کیا تھا

0
60