وہ مجھ کو ڈھونڈتا پھرتا ہے تب سے
میں اپنے آپ میں کھویا ہوں جب سے
مرا واقف یہاں کوئی نہیں ہے
بہت تنہا ہوا ترکِ نسب سے
مرے دشمن تو میرے سامنے تھے
کسی اپنے کا تیر آیا عقب سے
مسیحا دیر کر دی آتے آتے
وہ سویا ہے تڑپتا تھا جو شب سے
جہاں پر سر قلم میرا ہوا تھا
وہاں اب پھول رکھتے ہیں ادب سے
مجھے جلدی سے جھنڈے میں لپیٹو
جنازہ کچھ تو نکلے میرا ڈھب سے
ہے اب شہرِ خموشاں میرا مسکن
یہاں سے جو بھی گزرے کچھ ادب سے

0
49