پانی ہو معرفت کا میسّر اگر رواں |
پا جائیں اس کے پینے سے اک دوسرا جہاں |
اس سے کریں وضو تو ہو لذّت نماز میں |
عرفاں کے پانیوں میں رہیں رات دن یہاں |
روحانی مائدہ کے یہ اترے ہیں طشت جو |
نازل ہوئے ہیں اُس پہ جو ہے مہدئ زماں |
آبِ حیات یہ جو میسّر ہے روز و شب |
چشمے پہ معرفت کے ، پیئیں بیٹھ کر یہاں |
اشکوں کے صاف پانی سے دھلتے ہیں سب گناہ |
سجدوں میں رو ، کے التجا کرتے ہیں جب میاں |
سیراب پانی جو کرے ، جنت کے باغ سب |
اعمالِ صالحہ کی ہی نہروں میں ہے رواں |
پانی کے ایک گھونٹ سے بجھتی نہیں ہے پیاس |
لقمے سے ایک کب بھرے بھوکے کا پیٹ یاں |
سیراب ہو ں جو پانی سے عرفان کے یہ روز |
سر سبز ہوں یہ کھیت ، پھلیں پھولیں گلستاں |
اس میکدے سے ملتی ہے جو معرفت کی مے |
اس سے سرور پائیں جو ، اَسرار ہوں عیاں |
بھوکے کو خواب روٹیوں کے آئیں رات بھر |
پانی سراب میں ہو میسّر مگر کہاں |
طارق بصیرتوں سے ، جو محروم تم رہو |
کیسے عیاں ہو تم پہ وہ جو یار ہے نہاں |
معلومات