کیوں دیکھتے ہیں لوگ ہمیں یوں عجیب سے |
حالانکہ جانتے نہیں ہم کو قریب سے |
جو مسکراہٹیں بھی کسی کو نہ دے سکیں |
لگتے ہیں وہ امیر بھی ہم کو غریب سے |
پہلو میں بیٹھ کر بھی ہوئی اُن سے گفتگو |
ازحد ہوں خوش کہ موقع ملا یہ نصیب سے |
چاہا نہیں ہو اُس کا دیا زخم مندمل |
اب تک نہ مشورہ کیا ہم نے طبیب سے |
گھائل ہیں اُس کے حُسن کے وہ بھی اسی لئے |
رکھتے نہیں ہیں بیر کسی بھی رقیب سے |
چاہو جسے تو اُس کے کھلونے بھی ہوں عزیز |
بچپن میں ہی سنا تھا یہ شاید خطیب سے |
عاشق کا اس نے دشمنوں سے پا لیا خطاب |
رکھتا تھا ایسا پیار وہ اپنے حبیب سے |
طارق نہیں ہے پیار میں آسان زندگی |
نغمہ سنا چمن میں یہی عندلیب سے |
معلومات