اس سے ملا ہوں تب سے بڑی الجھنوں میں ہوں |
وہ ساتھ تو ہے پھر بھی میں تنہائیوں میں ہوں |
بھگدڑ مچی کچھ ایسی کہ وہ ہاتھ چھٹ گیا |
ڈھونڈوں کہاں اسے کہ ابھی آندھیوں میں ہوں |
گرگٹ نما وہ رنگ بدلتا ہے ہر گھڑی |
میں اس کو جاننے کے ابھی مرحلوں میں ہوں |
چلتا ہوں آگے اک قدم پھر پیچھے دو قدم |
کھولی ہے جب سے آنکھ گھرا حادثوں میں ہوں |
دن کو تو غرقِ جام رہا دوستوں کے بیچ |
گذرے کی کیسے رات یہ ویرانیوں میں ہوں |
جتنا بدل لوں خود کو میں رہتا ہوں پھر وہی |
بدلوں میں کس طرح کہ ابھی آئینوں میں ہوں |
مجھ کو جنوں تھا ہو کبھی ادراکِ آگہی |
ادراکِ آگہی کی کڑی منزلوں میں ہوں |
ماضی کے تلخ بوجھ سے اب جھک گئی کمر |
ماضی کو بھولنے کے کڑے تجربوں میں ہوں |
میری تلاش ان کو لیے پھرتی ہے ہر گلی |
اب لامکاں سے آگے کی میں وسعتوں میں ہوں |
اقبال کے سخن نے یوں برباد کر دیا |
شاہین ہو گیا ہوں گھرا کرگسوں میں ہوں |
معلومات