میں ہمکلام ہوا اس سے بے خودی میں تھا |
مرا سفر تو کٹا سارا تشنگی میں تھا |
اسے ملا ہوں تو احساس اور گہرا ہوا |
اسی کا عکس مری ساری زندگی میں تھا |
حساب لیتے ہوئے یونہی مجھ کو جانے دے |
مرا تو لکھّا ہوا نام بندگی میں تھا |
تری تلاش میں مجھ کو اگرچہ وقت لگا |
کمال لُطف ملا تیری آگہی میں تھا |
وہ ہم سفر تھا مگر میرے ساتھ چل نہ سکا |
میں تیز روشنی میں تھا وہ تیرگی میں تھا |
کہاں ملا ہے سکوں دل کو ظلم کر کے کبھی |
اسے ملا یہ سبق امن وآشتی میں تھا |
اسی نے پایا جو سب چھوڑ کر چلا آیا |
ہوا یہ تجربہ مجھ کو بھی عاشقی میں تھا |
نہ جانے دشمنی حائل ہوئی کہاں طارق |
ملایا ہم نے تو ہاتھ اس سے دوستی میں تھا |
معلومات