اٹھ کے محفل سے مری وہ شخص جاۓ |
دردِ ملت جس کے دل کو نہ رلاۓ |
کوئی ہے ملت کی خاطر جو جواں |
صبحِ گاہی میں اٹھے آنسوں بہاۓ |
جس کے فردوسِ تخیل میں بہار |
فکرِ گلشن ہر گھڑی جس کو ستاۓ |
عاشقِ بیتاب کوئی ہے جہاں میں |
سوزِ الفت کی تپش جس کو جلاۓ |
باغباں کیسا ہے وہ دے کر لہو |
گلشنِ اسلام کو جو نہ سجاۓ |
ملک و ملت سے جو ظالم بے خبر ہے |
محفلِ ہستی سے بہتر ہے وہ جاۓ |
اہلِ دل کے واسطے یہ نظم ہے |
بے دلوں کو کب میرے اشعار بھاۓ |
اس جہاں کے سینے میں اک قوم ہے |
زندہ تر پائندہ تر وہ قوم ہے |
جس کی جرأت پر فدا ہے یہ جہاں |
فخر جس پر کر رہا ہے آسماں |
جو جبینِ آسماں کا نور ہے |
جس کے ساۓ میں پلی ہے کہکشاں |
جس کی آنکھیں بے خطر بے خوف ہیں |
جس میں کا ہر نوجواں ہے جاں فشاں |
آسمانِ ظلم کو دہلا دیا ہے |
تیغ کے ساۓ میں پل کر وہ جواں |
قومِ مسلم کے لئے وہ پھول ہیں |
دشمنوں کے واسطے آتش فشاں |
دین و ملت کو بچانے کیلئے |
وہ نکلتے ہیں جلا کر آشیاں |
قوم وہ بھی ہے ہماری ہی طرح |
ہے مگر ہر فرد اس کا پاسباں |
ان جوانوں سے امم ہیں شادماں |
ہے انہیں کے دم سے روشن آسماں |
شورشِ محشر سے وہ گھبراۓ کیوں |
اک قیامت روز جس کو پیش آۓ |
اس کی مضبوطی کا عالم کیا کہوں |
دردِ دل بھی روز جس کو آزماۓ |
یہ فلسطینی بہادر قوم ہے |
جس کے آگے ظلم کہتا ہاۓ ہاۓ |
ہے سلام اُس قوم کے افراد کو |
جس کے آگے سرنگوں ہے زور ہاۓ |
جاوداں اُس قوم کا قلب و جگر |
ہے کوئی اِس قوم میں جو لے کے آئے |
آفریں ہے ان جوانوں کیلئے |
دے کے اپنا خون جو ملت بچاۓ |
ہے یقیں کامل مجھے اُس قوم کے |
بزمِ عالم میں رہے تا دیر ساۓ |
اس جواں پر دل مرا قربان ہے |
ملک و ملت جس کا دیں ایمان ہے |
ہے مری آنکھوں میں وہ تصویر بھی |
صاحبِ علم و ہنر شمشیر بھی |
وہ جواں وہ پیکرِ عزم و وفا |
جس نے ہاتھوں سے لکھی تقدیر بھی |
خواب دیکھے تھے نگاہوں نے کبھی |
پالیا آنکھوں نے وہ تعبیر بھی |
جن کی قدموں نے کچل ڈالا جہاں |
ذرہ ذرہ سے اٹھی تکبیر بھی |
جس نے دنیا کو غلامی سے چھڑایا |
وہ اسیرِ حلقۂ زنجیر ہے |
باعثِ رسوائیِ ملت ہیں یہ |
قومِ مسلم کے لئے ذلت ہیں یہ |
اندلس کی داستاں بھی ہے نظر میں |
جو کبھی آباد تھا شام و سحر میں |
جس کے آنگن میں کھلا تھا گلشنِ دیں |
جو کبھی ٹھنڈک سا تھا قلب و جگر میں |
جس کے کوچے کوچے میں گونجی اذاں تھی |
جس کی خواہش تھی ہمیں سفر و حضر میں |
جو مسلماں کو بہت محبوب تھا |
تولتے تھے جس کو مسلم سیم و زر میں |
مائیں بچوں کو سناتی لوریوں میں |
جس کی جرأت کے فسانے اپنے گھر میں |
جس کے آگے زیر تھا یہ آسماں بھی |
جس کی عظمت تھی عیاں ہر دیدہ ور میں |
آسماں تاریک تر پھر ہو گیا |
وہ درخشندہ ستارہ سو گیا |
پھر ہوا کیا پاسباں سوتا رہا |
ملک و ملت ہاتھ سے جاتا رہا |
دین و ملت سے جو دوری بڑھ گئی |
عظمتِ دیرینہ پھر کھوتا رہا |
چھوڑ دی جو پاسبانی قوم کی |
غیر کی قدموں میں پھر بچھتا رہا |
ہوگیا سستا مسلماں کا لہو |
دہر کے مے خانے میں بہتا رہا |
جو بغاوت کرگیا اس دین سے |
قعرِ ذلت میں گرا گرتا رہا |
شوکتِ باطل سے جو گھبرا گیا |
آج تک دنیا سے وہ مٹتا رہا |
نوجواں جب دور ملت سے ہوا |
پھر جہانِ کفر اس پر چھا گیا |
اب یہی کچھ ہند میں بھی ہو رہا ہے |
مذہبِ اسلام سب کچھ کھو رہا ہے |
خرمنِ الفت کو وہ کر کے تباہ |
بیجِ نفرت ہر زمیں میں بو رہا ہے |
ظلم کے آگے جھکی ہیں گردنیں |
اور مصلے پر نمازی رو رہا ہے |
کیا کہوں اہلِ خدا کی داستاں |
بارِ دیگر اپنے سر پر ڈھو رہا ہے |
دہل جائے کفر کے دل جس سے وہ |
حیف کہ وہ شیر اب تک سو رہا ہے |
اٹھ کہ ہے اب منتظر بزمِ جہاں |
شوقِ رفعت میں جھکا ہے آسماں |
گرچہ تو نا آشنا شمشیر ہے |
پر زباں پر نعرۂ تکبیر ہے |
گو عمل پیرا نہیں ہے تیرا دل |
تو اے واعظ! ماہرِ تقریر ہے |
کون ہے جو قوم کا رہبر بنے |
تم میں کوئی صاحبِ تدبیر ہے |
ملک و ملت کی بقا کے واسطے |
پاس تیرے کیا کوئی تدبیر ہے |
کون ہے بدلے گا جو تصویرِ بزم |
کس کی ہستی قوم کی تقدیر ہے |
پھر وہی معمارِ ملت چاہیے |
جس کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہے |
پاسباں ہے قوم کا ہر نوجواں |
قوم کی یہ برہنہ شمشیر ہے |
حیدر و ٹیپو کی جرأت کی دلیل |
یہ جہاں آباد میں اک ویر ہے |
نظمِ عالم کے لئے آئین ساز |
قوم و ملت کا امیر و میر ہے |
عالمِ اسلام کا فخر و غرور |
تختِ ہندوستاں کا عالم گیر ہے |
صاحبِ سیف و قلم ہو ہر جواں |
ملک و ملت ہے اسی سے جاوداں |
معلومات