جب وہ محفل میں بے نقاب آیا
واللّہ ہر چیز پر شباب آیا
چہرہ زلفوں میں یوں جھلکتا ہے
جیسے بدلی میں ماہتاب آیا
ہوئی عنقا وفا کتابوں سے
نئے ٹیچر نیا نصاب آیا
لوگ گنتے رہے حسابوں میں
آیا آیا وہ بے حساب آیا
کون ہے جو مری گواہی دے
ہاتھ باندھے ابو تراب آیا
وعدہ سالن کا تھا پڑوسی کا
ہم بھی بھُوکے ہیں یہ جواب آیا
آئے اک ساتھ دونو کمرے میں
ایک سوسن تھی اک گلاب آیا
اب مجھے خط کبھی نہ لکھنا تم
کتنا مایوس کُن جواب آیا
کتنی نفرت رہی سرابوں سے
پھر بھی ہر گام پر سراب آیا
جب چراغوں میں روشنی نہ رہی
اک چمکتا سا ماہتاب آیا
ایک پائی تو مِل سکی نہ کبھی
آپ کہتے ہیں احتساب آیا

56