اس کے سانچے میں ڈھل نہیں پائے |
سنگ تھے ہم بدل نہیں پائے |
وہ جلاتا رہا ہمیں برسوں |
ہم تو پتھر تھے جل نہیں پائے |
لوگ مرتے تھے اک جھلک کے لیے |
سامنے تھا مچل نہیں پائے |
ہم تو وہ ہیں کہ پی کے میخانہ |
چند لمحے بہل نہیں پائے |
چوٹ پوچھو نہ کافی گہری تھی |
آج تک ہم سنبھل نہیں پائے |
خود میں داخل ہوئے کہ ہم شاہد |
خود سے اب تک نکل نہیں پائے |
معلومات