پاتا ہے آدمی تو خزانے کوئی کوئی
اور دیکھتا ہے خواب سہانے کوئی کوئی
فطرت کھلی کتاب ہے جو چاہے دیکھ لے
رازِ درونِ خانہ تو جانے کوئی کوئی
غاروں میں رہ کے لوگ گزارہ کریں مگر
آتا ہے شہر کو تو بسانے کوئی کوئی
صحرا میں کیسے آئے گا طوفان سب کہیں
آتا ہے اُس میں کشتی بنانے کوئی کوئی
سچ دیکھنے کو آگ میں پھینکیں سبھی مگر
آتا ہے اپنی پیاس بجھانے کوئی کوئی
ہر دور میں طلسم و تماشہ دکھائیں لوگ
آتا عصا ہے سانپ بنانے کوئی کوئی
فرعونِ وقت حق کے تعاقب میں ہیں سبھی
ہوتا ہے غرق کون یہ جانے کوئی کوئی
کتنے ہی لوگ چڑھ گئے سچ کی صلیب پر
چڑھتا ہے آسمان پہ جانے کوئی کوئی
کرتے ہیں معجزات کا سب ہی مطالبہ
پر ان کو دیکھ کر بھی تو مانے کوئی کوئی
اخلاق معجزے سے زیادہ ہیں پُر اثر
ترکش میں ڈال تیر یہ تانے کوئی کوئی
طارق پڑھو جو خود کو تو شاید یہ جان لو
ہوتے ہیں آدمی بھی خزانے کوئی کوئی

1
56
پسندیدگی کا بہت شکریہ ناصر ابراہیم صاحب

0