جوہڑِ مردار میں دجلہ کی طغیانی ملی |
سبزہ زاروں میں مجھے صحرا کی ویرانی ملی |
لوگ خوش مکھ ہر طرف پھرتے نظر آئے مجھے |
ان کے اندر چار سو پھیلی بیابانی ملی |
اہلِ دانش شہر کے فٹ پاتھ پر سوتے ملے |
اور محلوں میں مجھے ہر سمت نادانی ملی |
مجھ کو یہ تعلیم کہ ہر شۓ یہاں کم یاب ہے |
آنکھ اٹھی جس طرف مجھ کو فراوانی ملی |
جب لگا سب راز شاہد مجھ پہ افشاء ہو گئے |
کیا ہوا اگلے قدم پر پھر سے حیرانی ملی |
معلومات