جوہڑِ مردار میں دجلہ کی طغیانی ملی
سبزہ زاروں میں مجھے صحرا کی ویرانی ملی
لوگ خوش مکھ ہر طرف پھرتے نظر آئے مجھے
ان کے اندر چار سو پھیلی بیابانی ملی
اہلِ دانش شہر کے فٹ پاتھ پر سوتے ملے
اور محلوں میں مجھے ہر سمت نادانی ملی
مجھ کو یہ تعلیم کہ ہر شۓ یہاں کم یاب ہے
آنکھ اٹھی جس طرف مجھ کو فراوانی ملی
جب لگا سب راز شاہد مجھ پہ افشاء ہو گئے
کیا ہوا اگلے قدم پر پھر سے حیرانی ملی

72