ایک مٹی سے بنے ہیں آدمی ، سرو و سمن |
مختلف رنگوں کے ، گُل ، پہنے ہوئے ہیں پیرہن |
ہے وہی مٹی نکلتے ہیں اسی سے پھول و پھل |
ہے اسی مٹی نے پیدا کر دیا کھائیں جو دھن |
پیڑ ہیں جن کے پھلوں کے ذائقے سب مختلف |
گھاس اور اشجار نے اُگ کر بھرے ہیں سارے بَن |
دل کو بھائے ان کا نظّارہ ، ہیں منظر دلفریب |
پھول نے کیسے وہ دی خوشبو کہ مہکا ہے چمن |
جانور جنگل کے ،کس خوبی سے کرتے ہیں شکار |
حسن کا پیکر پرندے ، چوکڑی بھرتے ہرن |
چشمِ مستِ ہر حسیں میں اس کا جلوہ آشکار |
زلفِ خم کر کے اشارہ ہے بتانے میں مگن |
کیوں نظر آتا نہیں طارق اُنہیں قدرت کا ہاتھ |
جس کی صنّاعی کا مظہر ، دیکھ تو کوہ و دمن |
معلومات