شرافت ہچکچائے جن سے یہ وہ پیر لگتے ہیں |
تو ان کے معتقد کیوں صاحبِ توقیر لگتے ہیں |
سنا تھا ذکر جن لوٹوں کا اب بھی ہیں سیاست میں |
کبھی چمچے جو کہلاتے تھے اب کفگیر لگتے ہیں |
مرے کچھ مہرباں نالاں ہیں اتنے ڈاکٹر سے اب |
حکیموں کے سبھی نسخے انہیں اکسیر لگتے ہیں |
انہیں گھر بھی چلانا ہے الیکشن جیتنا بھی ہے |
مسائل اب انہیں لوگوں کے سب گمبھیر لگتے ہیں |
انہیں پیرِانِ تسمہ پا سے کوئی تو بچا لے اب |
وہ قینچی ڈال کر گردن پہ رسہ گیر لگتے ہیں |
ہمیں ان کی سیاست سے نہیں کچھ لینا دینا پر |
مصیبت میں انہیں پا کر ذرا دلگیر لگتے ہیں |
یہ دنیا چار دن یوں جو عجب سپنے دکھاتی ہے |
وہ کب ہوتے ہوئے شرمندۂ تعبیر لگتے ہیں |
ہمارا کام ہے طارق انہیں اتنا بتا دینا |
یہ لیڈر ان کی اپنی ہی کوئی تقصیر لگتے ہیں |
معلومات