پھر سے جاہل کوئی کرسی پہ بٹھا دیں نہ کہیں
پھر سے منصور کو سُولی پہ چڑھا دیں نہ کہیں
وہ جو ہے نقش تِرا چہرہ مری یادوں میں
میرے بدلے ہوئے حالات چھپا دیں نہ کہیں
بیٹھ کر ریت پہ ساحل کی، تِرا نام لکھوں
پھر میں لہروں سے لڑوں ، اُس کو مِٹا دیں نہ کہیں
نیک کر جاؤں کوئی کام ، اگر دنیا میں
یہ نہ ہو ڈر مجھے جنَّت سے بھگا دیں نہ کہیں
سینچ کر گلشنِ احمد کو لہو سے جو گئے
بھولنے ایسے شہیدوں کی وفا دیں نہ کہیں
اپنے اعمال میں تقویٰ پہ رہیں قائم ہم
اپنے اسلاف کے اطوار بھلا دیں نہ کہیں
ہم نے ورثے میں جو پائے ہیں خزانے بھاری
ان کو معمولی سمجھ کر ہی گنوا دیں نہ کہیں
صبر کے ساتھ دُعا ، شیوہ رہے طارق یوں
اپنے اخلاق کا معیار، گرا دیں نہ کہیں

1
134
پسندیدگی کا بہت شکریہ جناب ملک اسد صاحب !

0