پھر سے جاہل کوئی کرسی پہ بٹھا دیں نہ کہیں |
پھر سے منصور کو سُولی پہ چڑھا دیں نہ کہیں |
وہ جو ہے نقش تِرا چہرہ مری یادوں میں |
میرے بدلے ہوئے حالات چھپا دیں نہ کہیں |
بیٹھ کر ریت پہ ساحل کی، تِرا نام لکھوں |
پھر میں لہروں سے لڑوں ، اُس کو مِٹا دیں نہ کہیں |
نیک کر جاؤں کوئی کام ، اگر دنیا میں |
یہ نہ ہو ڈر مجھے جنَّت سے بھگا دیں نہ کہیں |
سینچ کر گلشنِ احمد کو لہو سے جو گئے |
بھولنے ایسے شہیدوں کی وفا دیں نہ کہیں |
اپنے اعمال میں تقویٰ پہ رہیں قائم ہم |
اپنے اسلاف کے اطوار بھلا دیں نہ کہیں |
ہم نے ورثے میں جو پائے ہیں خزانے بھاری |
ان کو معمولی سمجھ کر ہی گنوا دیں نہ کہیں |
صبر کے ساتھ دُعا ، شیوہ رہے طارق یوں |
اپنے اخلاق کا معیار، گرا دیں نہ کہیں |
معلومات