نگاہیں کیوں مگر کرتی مری گوہر فشانی ہے |
دلِ فولاد لیکن آج محوِ خوں چکانی ہے |
دلِ غیور کہتا ہے غموں کے بھیڑ میں مجھ سے |
نہ ٹپکے آنکھ سے آنسوں اگر تو خاندانی ہے |
سبھی کو اس جہانِ بے ثباتِ کن سے جانا ہے |
یہ آنا جانا تو اے دل ! زمانے کی نشانی ہے |
یہ آغازِ مصیبت ہے ذرا دشوار تو ہوگا |
ذرا دل تھام کر بیٹھو کہ باقی زندگانی ہے |
غمِ ہجرت کی آتش میں ابھی تو دل کو جلنا ہے |
ابھی سے ہار بیٹھے ہو ابھی تو جان جانی ہے |
ابھی بچپن سے نکلے ہو, ذرا سا اور جینا ہے |
جواں! غافل نہ ہو جانا بہت تھوڑی جوانی ہے |
اٹل ہے فیصلہ اس کا بڑھاپا اک بہانا ہے |
اجل وقتِ معین ہے بھلے ہی ناگہانی ہے |
بہت آساں ہو جائے گایہ رفتہ رفتہ تجھ پر بھی |
اے دل ! غمگیں نہ ہو جانا یہی سب کی کہانی ہے |
غم و افسوس کیا کرنا ملاتی ہے خدا سے موت |
میسر جس کو ہو جائے خدا کی مہربانی ہے |
خدا آباد رکھنا اپنے ہم نامِ صمؔد کو بس |
مرے بیتاب جذبوں کی یہی کچھ ترجمانی ہے |
نہ ڈرنا موت سے ہرگز کہ یہ بس شامِ دنیا ہے |
اے شاہؔی موت تو صبحِ حیاتِ جاودانی ہے |
معلومات