یہاں وہ آسماں ہوتا وہاں یہ سر زمیں ہوتی |
نہ بڑھتے ہاتھ دامن تک نہ رسوا آستیں ہوتی |
اگر ابلیس کے پنجے سے دائم سُرخرو رہتے |
کہاں انگور کی بیٹی کہاں زہرہ جبیں ہوتی |
اگر لعل و زر و مال و جواہر بے ثمر ہوتے |
یہی دنیا اے میرے ہم نشیں خُلدِ بریں ہوتی |
اگر انصاف کا اس دہر خانے میں وجود ہوتا |
تو پھر کیوں خون میں ڈُوبی زمینِ فلسطیں ہوتی |
وجودِ صنفِ نازک نے کیا گمراہ آدم کو |
وگرنہ نسلِ آدم با خدا جنّت نشیں ہوتی |
اگر مظلوم کو پیدا کیا تو مقتدر رکھتا |
کوئی دستار دی ہوتی ذرا عزّت کہیں ہوتی |
غزہ میں خون کی ہولی پہ حیرت ناک خاموشی |
صدائے احتجاج اٹھتی ندائے نکتہ چیں ہوتی |
وہ ہر اک بات پر ہر بات کی تاویل فرمانا |
کبھی تو کوئی تیری بات وعدوں کی امیں ہوتی |
تمہیں امید باتوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا |
مگر اے کاش باتوں میں کوئی منطق کہیں ہوتی |
معلومات