اپنی تباہیوں کے یوں آثار آ گئے |
قصے ہمارے عشق کے بازار آ گئے |
گل تو تمام بانٹ دیئے باغبان نے |
حصے ہمارے خار ہی اس بار آ گئے |
امید تھی کہ آج وہ بس پھول لائيں گے |
وہ لے کے اپنے ہاتھ میں تلوار آ گئے |
جلاد جب ملا نہ کہیں سے بھی شاہ کو |
گردن ہماری کاٹنے سب یار آ گئے |
یوسف تھے کون دیتا جو قیمت ہماری تھی |
واپس ہم اپنے گھر کو دل آزار آ گئے |
اس زاہدوں کی بستی کو کس کی نظر لگی |
رہنے یہاں تمام گنہ گار آ گئے |
شاہد ہمیں تلاش سہل منزلوں کی تھی |
رستے ہمارے سامنے دشوار آ گئے |
معلومات