کیا نہیں میرے لیے کوئی وطن کوئی زمیں
میں پہیلی تو نہیں ہوں جو نہ سمجھے ہم نشیں
کس جہاں آباد میں پیدا ہوا ہوں اے خدا
کیوں سمجھتی ہے یہ دنیا "میری ہستؔی" کچھ نہیں
محوِ گردش مہر و انجم ہیں مرے افلاک میں
کہکشاں ہے مجھ پہ شیدا ہے فدائی مہ جبیں
مجھ پہ نازاں ناز و انداز و ادا حسن و کشش
ہوں گے لاکھو حسن والے ہوں مگر سب سے حسیں
سینۂ ارض و سما میں میری ہستی بے مثل
ڈھونڈ لے سارے جہاں میں ہوگا نہ مجھ سا کہیں
راستہ پر خوار ہے منزل تلک لیکن کبھی
میں پہونچ جاؤں گا اک دن ہے مجھے اتنا یقیں
وہ بھی کوئی زندگی ہے جانثارانِ امم
انقلابی فکر جس میں نہ ہو عالم آفریں
محفلِ ہستی سے بہتر ہے نکل جاۓ کہیں
حال سے جو بے خبر ہے نہ ہو استقبال بیں
ہو گئے مجھ سے خفا کیوں ملک و ملت کے امام
میں نے بس اتنا کہا ہے ہیں" سیاسیّات" دیں
ہے وہی اس دور میں مذہب کا شاہؔی پاسباں
جو سیاست آشنا ہے آشنا دینِ مبیں
عالم آفریں ۔
مجازاً اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والا (معمارِ مستقبل)

38