دلوں میں نفرتیں بھر کے جو کاروبار کرے
تو کیسے ہو گا وہ حالات سازگار کرے
گلی گلی میں محبّت کا میری چرچا ہے
اسے یہ شکوہ ہے مجھ سے نہ کوئی پیار کرے
عجب زمانے نے دستور یہ بنایا ہے
جو سچ کہے اسے ملزم وہ بار بار کرے
جنوں میں کہتے رہے وہ حکایتیں اپنی
سنے تو کوئی خرد کا نہ اعتبار کرے
ابھی تو دور بہت دور مجھ کو جانا ہے
اسے یہ کہہ دو وہ میرا نہ انتظار کرے
وہ صاف لفظوں میں کہہ دے مجھے محبت ہے
یوں بات بات پہ غصّہ نہ آشکار کرے
بہار آ گئی گلشن میں پھول کھلتے ہیں
خزاں کے پتّوں پہ اب کون انحصار کرے
عجیب بات ہے کتنی وہ معتبر ٹھہرے
جو بات جب بھی کرے جھوٹ شاہکارکرے
یہ وقت جانے کا اب تو ارادہ رکھتا ہے
ملے گا درد اسے بھی جو دل فِگار کرے
یہ خواہشیں تری اک دن تو رنگ لائیں گی
کہ طارق اب کوئی امّید کی بہار کرے

0
50