آفت ایک اور آسمانی چاہیے
سیدھے رستے کی نشانی چاہیے
بستیاں برباد کرنے کے لیے
دریا کو تھوڑی روانی چاہیے
پیار غائب چند لمحوں میں ہوا
بس ذرا سی بد گمانی چاہیے
ڈھونڈتا ہوں دوستوں کو آج کل
مجھ کو وہ صحبت پرانی چاہیے
کچھ نہیں اب چاہیے اس عمر میں
مجھ کو بس عہدِ جوانی چاہیے
پیار کا جادو بہت آسان ہے
بس ذرا جادو بیانی چاہیے
راہبر کو ڈوب مرنے کے لیے
بس ذرا چلو میں پانی چاہیے
فتویٰ ان پر داغنا ہے کفر کا
وعظ میں آتش بیانی چاہیے
اب تو بس مشہور ہونے کے لیے
ایک ہی رسوا کہانی چاہیے
آگہی کے راستے پر ہوں ابھی
مجھ کو تھوڑی بے نشانی چاہیے

0
40