پیار سے دیکھا جو اللہ کا گھر دیکھا ہے |
مسجدِ فضل و مبارک کو دِگر دیکھا ہے |
نوروں نہلائے بدن روحیں معطّر جن کی |
ان فرشتوں سا کوئی کم ہی بشر دیکھا ہے |
عرش تک ہوں جو رسا ایسی دُعائیں دیکھیں |
فرش پر سجدے جنہیں اشکوں میں تر دیکھا ہے |
کچھ تو بیماریٔ دل آج مرے کام آئی |
خود مسیحا نے مجھے آ کے اِدھر دیکھا ہے |
بُوئے گل ناز کرے اُس کو چمن میں پا کر |
اُس کی خوشبو کا ہوا ایسا سحر دیکھا ہے |
تھام پایا نہ دل اپنا نہ اُٹھی پھر سے نگاہ |
جس کسی نے بھی اُسے ایک نظر دیکھا ہے |
یوں تو گُفتار میں ٹھہراؤ مگر خندہ دہن |
نُورِ دیں اس میں کہیں فضلِ عمر دیکھا ہے |
دیں کی نصرت کے لئے ہمّتِ مرداں اس میں |
ناصرِ دیں بھی ہے طاہر کا اثر دیکھا ہے |
بانٹتا پھرتا ہے لوگوں میں جواہر ہر دم |
خِیرہ کردے جو نگہ ایسا گُہر دیکھا ہے |
خوش نصیب آگئے سب ایسے شجر کے نیچے |
ہے اماں سائے میں میٹھے ہیں ثمر دیکھا ہے |
حوصلہ تم بھی کرو ہاتھ بڑھاوٴ طارق |
پیار مشتاق نگاہوں میں اگر دیکھا ہے |
معلومات