میں دور ہوں جو آپ سے تو ہوں سراپا اضطراب
ہوں روبروئے مصطفؐیٰ، شکستہ دل میں ایک خواب
جو شوق مجھ کو گر نہ ہو حضور ﷺ تیری دید کا
ہو زندگی مری حجاب ، آخرت مری حجاب
ہے شوقِ دیدِ مصطفیٰ میں دل سراپا آرزو
جگر جگر لہو لہو ہے خون جیسے ہو سراب
ہاں، جل رہا ہے دل مرا، نگہ سے ندِّیاں رواں
کہ کردے اس جہاں کو راکھ سوزِ غم کا اک حباب
ہو زندگی کی شام پھر درِ نبی ﷺ کے آس پاس
کہ در کی نوکری میں ہو یہ عمر ساری اور شباب
گلہ مرے جو دل کو ہے وہ برملا کہوں اگر
نہ ہو خدایا عاصی کی جو حسنِ عاقبت خراب
کیا ، حضورﷺ صرف ان کے ہیں جو صاحبِ نصاب ہیں
جو جا رہے ہیں ہر برس بنایا جن کو ہے نواب
غریب ہوں میں بد نصیب دور ہوں حضورﷺ سے
ستائے جا رہا ہے دل و جان کو مرا غیاب
زمانہ تجھ سے نور یاب مشعلِ ہُدٰی ہے تو
تو اے منیرِ بدر! ﷺ تیری گردِ پا میں ماہتاب
تو چشمۂ حیات ہے تو نور کا منار ہے
تو کائناتِ بزم میں ہدایتوں کا آفتاب
تو اے شفیعِ مذنبیںﷺ ! چھپا لیو مجھے وہاں
ہاں رکھ لیو گناہ پر مرے شفاعتِ حجاب
سیاہ کار ہوں خدا چھپا لیو حضور ﷺ سے
کہ پردۂ حجاب میں لیو مرا خدا حساب
دکھا دیو مجھے بھی ہاں وہ روضۂ رسولﷺ کہ
ہے سازِ ہستی بے سرود زندگی بھی بے رباب
بلا لیو مجھے خدا ہاں اس برس کہ جانے کب
پتہ نہیں کہ خیمۂ حیات کی کٹے طناب
ہے بارگاہِ یزد میں یہی دعاۓ آخری
پلادے میرے شوق کو وہ حسنِ دید کا شراب
ہو سرخرو یہ شاہؔ بھی نقابِ خاک میں اگر
تو اے خدائے مصطفیٰ کرے مرا جو تام خواب
وجود میرا اس قدر برا لگا تجھے خدا
دیارِ عشق سے مجھے جو اتنا دور کر دیا
کرم کیا کہ امّتی حضورﷺ کی بنا دیا
مگر مجھے حضورﷺ سے یہ کتنا دور کر دیا
زیارتِ نبی کبھی خدا مجھے نصیب ہو
مدینۂ حضورﷺ کی فضا مجھے نصیب ہو

1
67
آمین