اس در پہ میرے ہادی لایا ہوں تار داماں
عاصی ہوں پر خطا ہوں عاجز ہوں ایک انساں
میرے ہے دل میں مولا یہ آرزو قدیمی
باغیچہ ہو نبی کا ان کا بنوں میں مہماں
شرفِ عظیم مجھ کو لمحات اس گلی کے
جو شہر کا ہے سلطاں کونین کی ہے وہ جاں
جو دل حضور میں ہے یادِ نبی سے ہر دم
اس کو ملا ہے ہمدم پھر فیض شاہِ شاہاں
عشاق کی ہے مستی یادِ نبی سے دائم
ہر جا حضور میں ہیں ہو دشت یا گلستاں
کافور غم ہے کرتی حب ہی حبیبِ رب کی
رحمت وہ عالمیں کی خُلقِ عظیم ذیشاں
دل چھوڑ کر وہاں ہی محمود آ کیا ہے
یہ شہر ہے حسیں وہ جس جا ہیں نورِ یزداں

83