محبّتوں میں تماشا نہیں کِیا کرتے
جہاں ہو دوستی گِلہ نہیں کِیا کرتے
جو روٹھ جائے اسے جا کے خود مناتے ہیں
ذرا سی بات پہ جھگڑا نہیں کِیا کرتے
جہاں پہ دے دیا دل جان بھی لُٹاتے ہیں
منانا یار ہو تو کیا نہیں کِیا کرتے
ہیں خواب اچھے مگر یاد میں کبھی اس کی
اُڑے جو نیند تو شکوہ نہیں کِیا کرتے
بڑھے جو کھول کے بانہیں گلے ملیں اس کو
یونہی تو خانۂ دل وا نہیں کِیا کرتے
جنوں میں کتنے ہی مسکن اسے بناتے ہیں
گلہ جگہ کا تو صحرا نہیں کِیا کرتے
ہیں آتے راستے میں ان کے موڑ تو بے شک
سفر یہ ترک تو دریا نہیں کیا کرتے
خلوص جن میں نہ طارق ہو ، دور رہتے ہیں
وہ لوگ دل میں بسیرا نہیں کیا کرتے

0
61