محبّتوں میں تماشا نہیں کِیا کرتے |
جہاں ہو دوستی گِلہ نہیں کِیا کرتے |
جو روٹھ جائے اسے جا کے خود مناتے ہیں |
ذرا سی بات پہ جھگڑا نہیں کِیا کرتے |
جہاں پہ دے دیا دل جان بھی لُٹاتے ہیں |
منانا یار ہو تو کیا نہیں کِیا کرتے |
ہیں خواب اچھے مگر یاد میں کبھی اس کی |
اُڑے جو نیند تو شکوہ نہیں کِیا کرتے |
بڑھے جو کھول کے بانہیں گلے ملیں اس کو |
یونہی تو خانۂ دل وا نہیں کِیا کرتے |
جنوں میں کتنے ہی مسکن اسے بناتے ہیں |
گلہ جگہ کا تو صحرا نہیں کِیا کرتے |
ہیں آتے راستے میں ان کے موڑ تو بے شک |
سفر یہ ترک تو دریا نہیں کیا کرتے |
خلوص جن میں نہ طارق ہو ، دور رہتے ہیں |
وہ لوگ دل میں بسیرا نہیں کیا کرتے |
معلومات