ہوا مشکل مرا جینا کہ پیدا کردے آسانی |
رلاتی ہے مسلماں کی جہاں میں تنگ دامانی |
تباہی کے دہانے پر مسلماں خوابِ غفلت میں |
پڑے ہیں جو بڑھاتے ہیں مری دلگیر حیرانی |
ادائے مصطفٰی سے بحرِ ایماں کو مرے بھر دے |
لبالب جام چھلکائے جہاں میں جوشِ ایمانی |
خدایا دے مسلماں کو وہ ذوقِ حسن و زیبائی |
مٹادے تیری دنیا سے نقوش و نقشِ شیطانی |
انہیں بازوئے مسلم دے، انہیں ذوقِ نمائی دے |
دلوں میں ڈال دے ان کے خدایا روحِ قرآنی |
سلیقہ دے، طریقہ دے، فراست، فہم و دانائی |
مقامِ خندق و احزاب میں اندازِ سلمانؓی |
جو حائل راستے میں ہوں پہاڑوں سے الجھ جاۓ |
عطا کر ذرۂ صحرا کو پربت کی سی چٹانی |
تمناۓ دلی میری فقط اتنی سی ہے یارب! |
دلوں میں اپنے بندوں کے عطا کر دردِ انسانی |
بہاروں کو بدل ڈالا خزاں سے موسمِ بد نے |
کہاں تک گلشنِ ہندؔی میں چھائے گی یہ ویرانی |
تہِ گرداب گرچہ ہے ابھی سرکش و طغیانی |
کہ آبِ رود سے رکتی کبھی نے مو جِ طوفانی |
مسلمانوں نہ گھبراؤ خس و خاشاکِ گلشن سے |
ہیں آنے کو ابھی مضطر بہت اندازِ مستانی |
مگر کوشش ضروری ہے یہی آئینِ قدرت ہے |
ملی منزل اسی کو ہے دیا ہے جس نے قربانی |
رہو تیار ہردم کہ ابھی آغاز ہونا ہے |
جہانِ آب و گل میں پھر سے اِجراۓ مسلمانی |
جہاں تک رات جاتی ہے جہاں بھی صبحِ روشن ہے |
وہاں تک عام ہونا ہے ابھی فرمانِ ربانی |
یہی پیغام دیتی ہے حدیثِ مصطفائیﷺ کہ |
جہانِ کاخ و کو میں ہو فقط توحیدِ یزدانی |
ہوئی روشن سحر جاگو جگاؤ دل کی جولانی |
شبِ غفلت سے اٹھ جاؤ کہ چھوڑو اب یہ نادانی |
نہ ایرانی نہ ساسانی نہ غسانی نہ خاقانی |
کرو ہمت کہ پھر ابھرے جہاں میں بزمِ عثمانؔی |
پریشاں ہوں کہ کیوں تجھ میں نہیں شوقِ حکومت ہے |
سکھایا تجھ کو قدرت نے ہے آدابِ جہابانی |
شکوہِ غزنؔوی ہو یا جلال و جاہِ ٹیؔپو ہو |
وجودِ معرکہ میں ہے تری ہستی بھی لاثانی |
عزائم کی بلندی سے حنین و بدر پیدا کر |
بھلے ہی تم میں ہے باقی ابھی بھی ترک و افغانی |
کئے جا کوششِ پیہم عجب کیا ہے کہ مل جائے |
تری تاریک راتوں کو ستاروں کی سی تابانی |
دلِ امید پیدا کر نہ ہو مایوس دل شاہؔی |
ابھی آنے ہیں گردش میں کئی ادوارِ سلطانی |
معلومات