آج ہے دل میں جو ہَل چَل کبھی ایسی تو نہ تھی
دید اس کی ہوئی مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیوں مرا صبر کا پیمانہ نہ لبریز ہوا
زندگی جہدِ مسلسل کبھی ایسی تو نہ تھی
شمع ہر حال میں جلتی ہے رہ دکھانے کو
رات ساحل پہ رہے گُل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا قدم آگے بڑھائیں گے زمیں ان کے لئے
بن گئی اب ہے جو دلدل کبھی ایسی تو نہ تھی
زندگی ہجر کے عالم میں بھی گزری پہلے
اب جو مشکل ہوا پل پل کبھی ایسی تو نہ تھی
ہجر میں بیتیں گے دن یہ کبھی سوچا ہی نہ تھا
جو تصوّر میں رہی کَل کبھی ایسی تو نہ تھی
سامنے آتا ہے چہرہ وہ کئی رنگ لئے
اُس کی تصویر مکمّل کبھی ایسی تو نہ تھی
آسرا اس پہ ہے طارق کہ جئے جاتے ہیں
نگہِ یار وہ غافِل کبھی پہلے تو نہ تھی

121