ہے صبر یہی تقدیر پہ راضی ہونے میں تاخیر نہ کر
تدبیر میں گر باقی ہے کمی رکھ اس پہ نظر تقصیر نہ کر
جو خواب سُہانے دیکھے تُو آئندہ شان و شوکت کے
گھر بیٹھے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تُو ان کی غلط تعبیر نہ کر
آئی ہے چمن میں ایسی خزاں یا ربّ جانے کا نام نہ لے
ڈالی ہے بُری جس نے بھی نظر تُو اتنی بری تاثیر نہ کر
آزاد ہوا جب میں پیدا اظہار تو حق بنتا ہے مرا
آزاد مری سوچوں کے لئے تیّار نئی زنجیر نہ کر
تعمیر ہوئی ہے ذات مری تحریر نے جب ڈالا ہے اثر
اب تُو خالی تقریروں سے اس قلعے کی تسخیر نہ کر
دنیا کے لئے انسانوں کو مت بھینٹ چڑھا انسانوں کے
ایماں نہ لگا اب داؤ پر جنّت کی یوں تشہیر نہ کر
طارق ہے یقیں جو بھی ہو گا انجام ترا اچھا ہو گا
تُو روشن مستقبل کی یوں گمبھیر اتنی تصویر نہ کر

0
33