چلی ہے کس ڈَگَر، بگڑی ہوئی ہے |
زباں پر ہے اثر ، بگڑی ہوئی ہے |
کریں ہم اعتبار اب کیا کسی پر |
جو ملتی ہے خبر ، بگڑی ہوئی ہے |
وہ اُس کے گھر کو جاتی تھی سڑک جو |
نہیں آساں سفر ، بگڑی ہوئی ہے |
وہی گردش ہے جاری آسماں کی |
مگر شام و سحر ، بگڑی ہوئی ہے |
بھلا شکوہ کریں کیا زندگی سے |
رہا باقی نہ ڈر ، بگڑی ہوئی ہے |
نہ پوچھو روح کے پیاسوں کی حالت |
جو آتی ہے نظر ، بگڑی ہوئی ہے |
ادب کی جو ہوا کرتی تھی عادت |
وہ باقی ہے اگر ، بگڑی ہوئی ہے |
اُٹھے گھبرا کے سپنوں میں جو دیکھے |
یہ دنیا اس قدر ، بگڑی ہوئی ہے |
نہ دیکھا تیرگی میں چاند نکلا |
کہا قسمت مگر بگڑی ہوئی ہے |
کوئی تو نبض دیکھے عاشقوں کی |
ملا جو چارہ گر، بگڑی ہوئی ہے |
سنبھالو تم بھی طارق ، دل کی حالت |
کسی کو دیکھ کر بگڑی ہوئی ہے |
معلومات