چلی ہے کس ڈَگَر، بگڑی ہوئی ہے
زباں پر ہے اثر ، بگڑی ہوئی ہے
کریں ہم اعتبار اب کیا کسی پر
جو ملتی ہے خبر ، بگڑی ہوئی ہے
وہ اُس کے گھر کو جاتی تھی سڑک جو
نہیں آساں سفر ، بگڑی ہوئی ہے
وہی گردش ہے جاری آسماں کی
مگر شام و سحر ، بگڑی ہوئی ہے
بھلا شکوہ کریں کیا زندگی سے
رہا باقی نہ ڈر ، بگڑی ہوئی ہے
نہ پوچھو روح کے پیاسوں کی حالت
جو آتی ہے نظر ، بگڑی ہوئی ہے
ادب کی جو ہوا کرتی تھی عادت
وہ باقی ہے اگر ، بگڑی ہوئی ہے
اُٹھے گھبرا کے سپنوں میں جو دیکھے
یہ دنیا اس قدر ، بگڑی ہوئی ہے
نہ دیکھا تیرگی میں چاند نکلا
کہا قسمت مگر بگڑی ہوئی ہے
کوئی تو نبض دیکھے عاشقوں کی
ملا جو چارہ گر، بگڑی ہوئی ہے
سنبھالو تم بھی طارق ، دل کی حالت
کسی کو دیکھ کر بگڑی ہوئی ہے

0
67