دُکھوں کے درد دعاؤں میں ڈھل نہ جائیں کہیں |
ستم گروں پہ یہ تلواریں چل نہ جائیں کہیں |
تماشہ دیکھتے ہیں روز جینے مرنے کا |
بُلاوا آ گیا تو سر کے بل نہ جائیں کہیں |
ہیں تاک میں سبھی صیّاد یوں قفس لے کر |
پرندے اپنے نشیمن بدل نہ جائیں کہیں |
کسی کے گھر کو جلانے تو آگئے ہو تم |
یہ سوچ لینا کہ ہاتھ اپنے جل نہ جائیں کہیں |
تمہیں یہ ڈر ہے مری گرمئِ محبّت سے |
وہ سنگ دِل جو ہوئے ہیں پگھل نہ جائیں کہیں |
کچھ اِس میں ڈال دیئے اور خَم حسینوں نے |
کہ زُلفِ یار سے عاشق نکل نہ جائیں کہیں |
مجھے تو بیٹے کو قربان کرنے جانا ہے |
یہ مار کھا کے شیاطیں سنبھل نہ جائیں کہیں |
فرشتے راہ میں آنکھیں بچھائیں گے طارق |
اگر یہ حضرتِ انساں پھسل نہ جائیں کہیں |
معلومات