عشق نے جانے کیسے کیسے لوگوں کو برباد کیا
جس نے بھی ایجاد کیا ہے باعثِ صد افتاد کیا
اک رستے پر ، منہ پھیرے تو ، ساتھ نہیں چل سکتے تھے
چلتے چلتے ، پل دو پل ، من فکروں سے آزاد کیا
لیلٰی پر الزام نہ آئے ، کس کس کو سمجھائیں ، کیوں
مجنوں چھوڑ گئے ہیں کتنے شہر ، اور دشت آباد کیا
عشق مجازی کرنے والے آخر کو یہ سمجھے ہیں
عشق حقیقی کرنے والوں کو اُس نے دلشاد کیا
ہر سُو حُسن بکھیرا ، دیکھو دونوں جہاں کے خالق نے
چہرے کو مہتاب بنایا ، قامت کو شمشاد کیا
وقت کی چڑیا ، دھیرے دھیرے ، ہاتھ سے نکلی جائے ہے
طارق کون ہے جس کو تُو نے ایسے میں اُستاد کیا

0
48