مری بہشت یہی ہے مجھے عطا کر دے |
مجھے وصال کی لذّت سے آشنا کر دے |
تجھے جو پائے مری روح کو قرار آئے |
تُو ایسا ذات میں اپنی مجھے فنا کر دے |
نظر اُٹھا کے تجھے دیکھ پاؤں پل دو پل |
کہیں سے حوصلہ مجھ کو بھی ایسا لا کر دے |
مرے وجود پہ وہ انقلاب آ جائے |
گناہ میرے سبھی مجھ سے جو جُدا کر دے |
ہے کُن کی منتظر اب بھی یہ کائناتِ دل |
کرے جو پاک اسے تُو وہی صدا کر دے |
خیال خام ہے طارق اگر کوئی سمجھے |
کہ جان دے کے حقِ بندگی ادا کر دے |
معلومات