مری بہشت یہی ہے مجھے عطا کر دے
مجھے وصال کی لذّت سے آشنا کر دے
تجھے جو پائے مری روح کو قرار آئے
تُو ایسا ذات میں اپنی مجھے فنا کر دے
نظر اُٹھا کے تجھے دیکھ پاؤں پل دو پل
کہیں سے حوصلہ مجھ کو بھی ایسا لا کر دے
مرے وجود پہ وہ انقلاب آ جائے
گناہ میرے سبھی مجھ سے جو جُدا کر دے
ہے کُن کی منتظر اب بھی یہ کائناتِ دل
کرے جو پاک اسے تُو وہی صدا کر دے
خیال خام ہے طارق اگر کوئی سمجھے
کہ جان دے کے حقِ بندگی ادا کر دے

1
57
ماشاءاللہ بہت خوب

0