یہ درد کا گھاؤ ابھی بھر کیوں نہیں جاتا |
یہ غم کا مد و جزر ٹھہر کیوں نہیں جاتا |
اک خوف کے حالے نے مجھے گھیر رکھا ہے |
ماضی میں ہوا اس کا اثر کیوں نہیں جاتا |
ہر روز گرا گر کے سنبھالا ہے خودی کو |
ٹوٹا ہوں کئی بار بکھر کیوں نہیں جاتا |
اک پل سے زیادہ میں کہیں رک نہیں پاتا |
اب میری لکیروں سے سفر کیوں نہیں جاتا |
گھر کے سبھی کونوں میں ہیں یادوں کی صلیبیں |
بس یہ ہی بہا نا ہے میں گھر کیوں نہیں جاتا |
اب اس کے خدوخال بھی اک خواب کی مانند |
شاہدؔ وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا |
معلومات