یہ درد کا گھاؤ ابھی بھر کیوں نہیں جاتا
یہ غم کا مد و جزر ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک خوف کے حالے نے مجھے گھیر رکھا ہے
ماضی میں ہوا اس کا اثر کیوں نہیں جاتا
ہر روز گرا گر کے سنبھالا ہے خودی کو
ٹوٹا ہوں کئی بار بکھر کیوں نہیں جاتا
اک پل سے زیادہ میں کہیں رک نہیں پاتا
اب میری لکیروں سے سفر کیوں نہیں جاتا
گھر کے سبھی کونوں میں ہیں یادوں کی صلیبیں
بس یہ ہی بہا نا ہے میں گھر کیوں نہیں جاتا
اب اس کے خدوخال بھی اک خواب کی مانند
شاہدؔ وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا

0
55