آتے آتے اس کو ہم پر اعتبار آ ہی گیا
وقت جس کا کر رہا تھا انتظار آ ہی گیا
عمر اک ہم نے گزاری خواب اس کے دیکھتے
آنکھ جب آخر کھلی موسم بہار آ ہی گیا
ہم محبّت میں خوشی سے سب ستم سہتے رہے
دیکھ کر آخر وفا اس کو بھی پیار آ ہی گیا
جس محبّت سے رہا ہے ایک مدت تک گریز
دل کو اس کے جان جانے سے قرار آ ہی گیا
نیم بسمل پھر رہا تھا کوچۂ جاناں میں وہ
دیکھ کر اپنا مسیحا دل فِگار آ ہی گیا
کب تلک رکھتے بچا کر ہم قفس کے طیر کو
تیر جب صیدِ حرم کے دل کے پار آ ہی گیا
میرے مرنے پر مرے گھر سوچ کر اتنا رقیب
میرا آنا اس کو ہو گا ناگوار آ ہی گیا
کب تلک طارق رہیں گے دکھ کے دروازے کھلے
بند کرنے ان کو اب تو اپنا یار آ ہی گیا

0
65