خدا کے پاک لوگوں کی طرف سے جب صدا آئی |
وہی آئے ہمیشہ جن کی فطرت سے نِدا آئی |
ہمارا کام تو آواز دینا ہے سو دیتے ہیں |
ہمارے کام دردِ دل سے جو مانگی دُعا آئی |
ہمیشہ گردشِ دوراں سے شکوے ان کو رہتے ہیں |
جنہیں بیگانگی اوروں کے در پر ہے جُھکا آئی |
زمین و آسماں مصروف ہیں دن رات گردش میں |
اگر ٹھہریں کسی پل تو سمجھ لینا قضا آئی |
وہ آئے سو بہانے کر کے بھی محبوب سے ملنے |
ہمیں تو سامنے آنے سے ان کے بھی حیا آئی |
محبّت میں ہماری سادگی دیکھو اسے ملنے |
چلے آئے نہ سوچا یہ ہمارے دل میں کیا آئی |
ملا ہے درد اس کو بھی کہیں طارق جُدائی کا |
ہماری جب نظر اس کو اداسی جا بجا آئی |
معلومات