شب کی تنہائی میں چپکے سے میں رو لیتا ہوں
جب مجھے ٹوٹے ہوئے دل کا خیال آتا ہے
خشک ہونٹوں پہ تبسم کی کلی کھلتی ہے
چشمِ مضطر میں جو اس جاں کا جمال آتا ہے
،
دل یہ ویراں ہے کہ آباد کروں میں کیسے
میرے آزردہ خیالوں میں وہ اب تاب نہیں
دل یہ اجڑا ہے تو اجڑے ہی اسے رہنے دو
اس کی تزئین دوبارہ کرے جو وہ خواب نہیں
،
پھر وہی خواب سہانے مجھے آجاتے ہیں
جس کی تعبیر فضیحت کے سوا کچھ بھی نہیں
کتنا رسوا ہوں زمانے کی نگاہوں میں اب
بزمِ ہستی مری عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں
،
یہ بھی کیا کم ہے ہمیں ان سے محبت تو ہے
ورنہ نفرت میں یہاں لوگ جیا کرتے ہیں
ہم تو اک آہ ہیں ہر دل سے نکل جاتے ہیں
آپ چاہت ہیں کہ ہر دل میں بسا کرتے ہیں
،
مرے ناکام ارادے نہیں جینے دیتے
جام ہونٹوں سے لگاتے نہیں پینے دیتے
زندگی کتنی شکایات کروں میں تم سے
موت آتی ہے مگر تم نہیں آنے دیتے
،
ہم نے سوچا تھا کہ اس دل سے نکل جاۓگی
سنگ دل بن کے کبھی موم پگھل جائے گی
خشک پتوں کی طرح سارے بھرم ٹوٹ گئے
کہ اچانک مرے بت خانے حرم ٹوٹ گئے
،
ہونا ہو رسوا جسے آکے محبت کرلے
مرنا بے موت جسے آکے محبت کرلے
یہ محبت نہیں کچھ اس کے سوا اے شاہی ؔ
ہونا برباد جسے آکے محبت کرلے

1
84
شکریہ محترم